Humans are not from Earth | How the Earth was made?

humans are not from earth, how the earth was made, how the earth was formed, how was earth created

زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی؟

یہ سوال ایسا ہے کہ سائنس آج بھی اس کا جواب دینے سے تذبذب کا شکار ہے۔ کیونکہ سائنس انسانی آنکھوں سے دیکھے جانے والے اور ہاتھوں سے محسوس کیے جانے والے تجرباتی حقائق پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد سائنس کو اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین اور تجربات کو بدلنا پڑتا ہے۔ سائنس کے مطابق آج سے کئی ہزار صدیاں پہلے ساری کائنات آ گ کا ایک گولہ تھی۔  پھر ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جسے Big Bang کہا جاتا ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں بہت سے سیارے اور ستارے وجود میں آئے۔ ز مین بھی اس دھماکے کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے جس نے سورج کے گِرد گردش شروع کر دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین ٹھنڈی ہوتی گئی اور اس پر زندگی کا ظہور ہوا۔ 

how did the earth form, how the world was created, history of earth, how was the earth formed according to scientists
زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء کے بارے میں سائنس کا ارتقائی نظریہ آج بھی بہت مقبول ہے، جسے عام زبان میں Evolution کہا جاتا ہے اور یہ ڈارون کی تھیوری ہے۔ ڈارون نے کہا کہ پہلے انسان بندر تھا اور پھر صدیوں بعد بندر کے ارتقائی عمل سے انسان بن گیا۔ حالانکہ یہ نظریہ کافی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اگر انسان بندر سے انسان بنا توجو آج کل بندر ہم دیکھتے ہیں وہ کیوں وقت کے ساتھ ساتھ انسان نہیں بن گئے اور اگر صدیوں پہلے ارتقائی عمل سے بندر انسان بن گئے تو کیا خبر آج کل جو بندر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی آنے والی صدیوں میں انسان بن جائیں اور وہ مختلف انسانوں کا روپ دھار لیں۔ لیکن ایک اہم سوال کہ یہ ارتقائی عمل صرف بندروں میں ہی کیوں ہوا؟ جس وقت ارتقائی عمل کے ذریعے انسان بن رہے تھے تو اُس وقت گدھے، گھوڑے اور ہاتھی وغیرہ کیا کر رہے تھے؟ اُن کو بھی تو تھوڑی بہت ترقی کر کے کچھ اور بن جانا چاہیے تھا۔ صدیوں پہلے کا ہاتھی آج بھی ہاتھی ہے جبکہ بندر بقول ڈارون ترقی کر کے انسان بن گیا۔ 

حال میں ہی ایک امریکی ڈاکٹر ایلس سلور نے اپنی نئی تحقیقاتی کتاب میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے۔ ڈاکٹر ایلس سلور نے اپنی کتاب Humans are not from earth میں تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ انسان اس سیارے (زمین) کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور پھر کسی وجہ سے اسے اپنے اصل سیارے سے دُورکر کےاس کے موجودہ سیارے یعنی زمین پر بھیج دیا گیا یا پھینک دیا گیا۔ 

ڈاکٹر ایلس جو ایک سائنسدان، محقق، مصنف اور امریکہ کے نامور ایکالوجسٹ ہیں، اُن کی کتاب میں موجود اِن الفاظ پر غور کیجئے۔ یاد رہے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔

اُس کا کہنا ہے کہ انسان کی جس سیارے پر تخلیق کی گئی اور جہاں وہ رہتا رہا ہے، وہ سیارہ (جگہ) نہایت پُر سکون ، آرام دہ اور رہنے کے لیے مناسب ماحول والی تھی، جسے VVIP کہا جاسکتا ہے۔ وہاں انسان بہت ہی نازک ماحول میں رہتا تھا۔ اِس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی روٹی، روزی کے لیے بھی کچھ محنت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ یہ اتنی لاڈلی مخلوق تھی جسے بہت ہی آرام والی زندگی میسر تھی۔ وہاں موسم ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا ماحول تھا، اور سورج کی دھوپ اور خطرناک شعاعیں بھی بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باہر اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ تبھی اس مخلوق یعنی انسان سے کوئی غلطی ہوئی اور اسے آرام دہ اور عیاشی والے ماحول سے نکال کر یہاں پھینک دیا گیا۔ جس نے انسان کو اُس سیارے سے نکالا، لگتا ہے وہ کوئی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں اور ستاروں کا نظام بھی تھا۔ وہ جسے بھی چاہتا کسی اور سیارے پر جزا یا سزا کے طور پر بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ 

ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو، کیونکہ زمین کی شکل کالا پانی جیل کی طرح ہے۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی مانند جس کے چاروں اطراف میں سمندر ہی سمندر ہے، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔ 

ڈاکٹر سلور ایک سائنسدان ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے کے بعد ہی رائے قائم کرتا ہے۔ اُن کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اُن کے دلائل کی بنیاد ان باتوں پر ہے جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

1.  زمین کی کشش ثقل اور جہاں سے وہ آیا ہے اس کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے اُس کی Gravity زمین سے بہت کم تھی جس کی وجہ سے انسان کے لیے چلنا پھرنا اور بوجھ اٹھانا وغیرہ بہت آسان تھا۔ اسی لیے انسان کے اندر کمر دَرد کی شکایات زیادہ تر Gravity کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ یہاں رہنے والی تمام مخلوق کی ریڑھ کی ہڈی زمین کے متوازی پائی جاتی ہے جبکہ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی (یعنی کمر) زمین سے نوّے درجے کے زاویے پر ہے۔ 

2.  انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں، وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں۔ ڈاکٹر ایلس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی انسان دکھا دیجیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے اس دعوے سے دستبردار ہو سکتا ہوں۔ جبکہ میں آپ کو ہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ملے گا۔ 

3.  ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور وہ Sunstroke کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود نہ تو وہ کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ 

4.  ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور اسے یہ احساس رہتا ہے کہ اُس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اُس پر بلا وجہ ایسی اداسی طاری ہو جاتی ہے جیسے کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے۔ چاہے وہ اپنے ہی گھر میں اپنے قریبی اور خونی رشتہ داروں کے پاس ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔ 

5.  زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹو میٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد Regulate ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت حرارت اور تیز دھوپ ہے تو اُن کے جسم کا ٹمپریچر خودکار طریقے سے Regulate ہو جائے گا یا اُسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا، جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ہونے لگتا ہے۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ 

6.  انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے مختلف ہے۔ اس کا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانوروں سے کہیں زیادہ اور مختلف ہے۔ 

7.  زمین کے اصل رہائشی یعنی جانوروں کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے اسے پکا کر نرم کیا جاتا ہے پھر اس کے جسم اور معدے کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ہوتی ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان زمین کے رہنے والا نہیں ہے۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو اسے کھانا پکانے کی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی تھی بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ مزید یہ کہ انسان صرف اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ہے جو اس کے یہاں اجنبی مخلوق ہونے کی نشانی ہے۔ 

8.  انسان کو زمین پر رہنے کے لیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اِس کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح کے نرم بستر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی۔

9.  انسان زمین کے سب باسیوں سے الگ تھلگ ہے۔ لہٰذا یہ یہاں پر کسی بھی بندر وغیرہ کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ہے۔ انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا، وہاں زمین جیسا ماحول نہیں تھا۔ اس کی نرم و نازک جلد جو سورج کی دھوپ کی وجہ سے جل کر سیاہ ہو جاتی ہے، وہ بالکل اس کے اصل سیارے کے مطابق بنائی گئی تھی۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی یہ اپنے ماحول میں نازکی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پُر تعیش بستر پر سونے کی عادت تھی، وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لیے کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکے۔ جیسے خوبصورت اور قیمتی محلات اسے وہاں میسر تھے وہ یہاں بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ باقی تمام جانور اور مخلوقات اس سے بے بیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری ہیں جن کو اچھا سوچنے کی توفیق ہے اور نہ اچھا رہنے کی۔ انسان بھی اس سخت ماحول میں رہ رہ کر سخت ہو گیا ہے جبکہ اس کی اصل محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی۔ یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا، تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ سکے۔ 

10.  ڈاکٹر ایلس کا کہنا ہے کہ انسان کی ترقی اور شعور سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اجنبی کو اپنے والدین سے بچھڑ کر اس سیارے یعنی زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ابھی کچھ ہی ہزار سال ہی گزرے ہیں۔ یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے اصل سیارے کی طرح بھر پور آرام دہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے، کبھی موبائل فون۔ کیونکہ اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ سال بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آرہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے جس کے پاس اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ایلس کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو آج تک کوئی بھی جھوٹا ثابت نہیں کر سکا۔ یہ تمام حقائق ایک سائنسدان بیان کر رہا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الحامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ ہم حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؑ کے قصّے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے۔ ارتقاء کے نظریات کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ہے۔ یہ سیارہ (یعنی زمین) ہمارا نہیں ہے ، یہ کہنا ہے ڈاکٹر ایلس کا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی بار بار لا تعداد مرتبہ یہ بتا دیا ہے کہ :

اے انسانو! یہ دنیا کی زندگی تمہارے لئے آزمائش ہے، یہ تمہارا مستقل ٹھکانا نہیں ہے جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق جزا اور سزا ملے گی۔ اچھے اعمال کی بدولت تم کو جنت ملے گی جہاں کی زندگی انتہائی خوبصورت اور پُر سکون ہے اور وہی تمہارا اصل گھر ہے۔



Also see: Other Mysteries of the World  دنیا کے عجوبے


Post a Comment

0 Comments