پاکستان کے 7 پُر اسرار مقامات
قارئینِ محترم! یقیناً آپ دنیا کے بہت سے پُر اسرار مقامات کی سیاحت کر چکے ہوں گے یا ان کے بارے میں جانتے ہوں گے ۔ لیکن شاید آپ پاکستان کے کچھ ایسے پُر اسرا رمقامات سے ناواقف ہوں گے جن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔ مثلاً کچھ مقامات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پریاں رہتی ہیں تو کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں روحوں کا راج ہے۔ اگر ایسا ہے تو آج ہم آپ کو پاکستان کےاُن 7 پُر اسرار مقامات کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جہاں آپ شاید جانے کی جرات بھی نہ کرسکیں۔ توملاحظہ فرمائیے دلچسپ معلومات۔1. کوہِ چلتن
کوہِ چلتن پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ میں واقع پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان کی ایک چوٹی ہے۔ 'Lwarrh Saar' کوہِ چلتن کی اونچی ترین چوٹی ہے جس کی اونچائی تقریباً 3194 میٹر ہے۔ کوہِ چلتن کو مقامی زبان میں چیل تن کہا جاتا ہے یعنی چالیس جسم۔ اس جگہ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں چالیس روحیں بھٹکتی رہتی ہیں جن کے والدین انہیں تنہا چھوڑ گئے تھے۔ اب یہ بات کتنی سچ ہے اس کے بارے میں تو ہم آپ کو نہیں بتا سکتے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مختلف روایات بتاتی ہیں کہ یہ بات حقیقت کے قریب تر ہے کہ یہاں چالیس روحیں بھٹکتی ہیں۔ مگر بعض لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہاں اکثر اوقات اُن روحوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔
2. مکلی کا قبرستان
مکلی کا قبرستان مکلی، ٹھٹھہ (سندھ) کے قریب واقع ہے۔ اس قبرستان کو بھی ایک پُر اسرار جگہ کہاجاتاہے جہاں لاکھوں قبریں ہیں اور یہ قبرستان آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، جرنیل اور فلسفی سپر دِ خاک ہیں جن کی منفرد طرز سے بنی ہوئی قبریں نہ صرف اہلِ قبر کی نشاندہی کرتی ہیں بلکہ اس زمانے کی تہذیب کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ یہاں پر موجود قبریں تاریخی لحاظ سے دو اَدوار میں تقسیم کی جاتی ہیں جن میں پہلا بادشاہوں کا دور ہے جو 1352 سے 1520 عیسوی تک کا ہےاور دوسرا ترخان بادشاہوں کا دور ہے جو 1556 سے 1592 سن عیسوی تک رہا۔ ان قبروں کا طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد نہایت پائدار ہے۔ یہ قبرستان ایک تہذیب کی عکاسی کرتا ہے جس کی قوم کے مٹنے کے بعد بھی ان کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتاہے۔ مکلی کا یہ قبرستان جسے ہر سال ہزاروں سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہیں، عالمی ورثے میں شامل ہے۔ یہ قبرستان 240 سال کے عرصے پر محیط ہے اور جہاں بادشاہ، ملکہ، علماء اور فلسفی مدفون ہیں۔ ان کی قبروں کے خدوخال اور نقش و نگار نہایت ہی دیدہ زیب ہیں جو ان میں مدفون لوگوں کی عمدہ تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کی ثقافت کی عکاس ہیں۔
3. شہرِ روگن
بلوچستان میں واقع اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جِن یا بد روحیں آباد ہیں۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں بدیع الجمال نامی ایک شہزادی رہتی تھی جس پر جنّات کا سایہ تھا۔ اس دَور کے کئی شہزادوں نے اسے جنّات سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ بالآخر ایک دن شہزادہ سیف الملوک نے اسے جنّات سے آزاد کروایا۔ لیکن اب یہ مشہور ہے کہ وہ جنّات اس علاقے کے پہاڑوں، غاروں اور ندی نالوں پر قابض ہیں اور اس علاقے میں آنے والے تمام انسانوں اور سیاحوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ شہزادی بدیع الجمال اور شہزادہ سیف الملوک کا یہ قصّہ بہت مشہور ہے جسے میّاں محمد بخش نے بھی اپنی کتب میں تمام واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح شہزادہ سیف الملوک شہزادی بدیع الجمال کو چھڑانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
4. مہاتا پیلس
مہاتا پیلس کراچی میں واقع ایک مشہور قدیمی محل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں برطانوی دور سے مافوق الفطرت اشیاء کا قبضہ ہے۔ 1927 میں بنائے گئے اس محل میں عجیب و غریب حرکات دیکھنے میں آتی ہیں۔ مثلاً اس محل کی روشنیاں کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتی ہیں اور عجیب سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ اس بات کی حقیقت کیا ہے؟ یہ شاید کسی کو معلوم نہیں۔ اس حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے آپ کو شاید اس محل میں جانا پڑے گا اور مشاہدہ کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں سوائے سنی سنائی باتوں کے۔
5. موہنجو دڑو
زمانہء قدیم کا یہ شہر تقریباً 2000 سال پُرانا ہے جو اپنے اندر کئی راز سمیٹے ہوئے ہے۔سائنسی تحقیق کے مطابق یہ شہر تھرمل نیو کلئیر دھماکے کے نتیجے میں تباہ ہوا۔ لیکن سائنسدان اس بات سے بھی حیران ہیں کہ 2000 سال پہلے کیسے اس علاقے کے لوگوں کو ایٹمی دھماکے کا علم تھا۔ تاہم ابھی تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ عقل حیران ہے کہ کس طرح یہاں پر ایٹمی دھماکہ ہوا، حالانکہ 2000 سال قبل ایٹم بم کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اہرامِ مصر کی طرح یہ بھی ایک معمّہ بنا ہواہے۔
6. کوہِ سلیمان
سلسلہ کوہِ سلیمان جنوب مشرقی افغانستان، زاول اور زیادہ حصہ لویا پکتیہ اور قندھار شمالی مشرقی حصہ ہے۔ جنوبی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان کے شمالی علاقوں اور صوبہ پنجاب کے جنوب مغربی علاقوں پر مشتمل ہے۔ سلسلہ کوہِ سلیمان سے بہنے والے دریاؤں میں دریائے ڈوری اور دریائے گومل شامل ہیں۔ تختِ سلیمان کی لمبائی 3483 میٹر یعنی 11427 فٹ پر مشتمل ہے۔ تختِ سلیمان کی سب سے بلند ترین چوٹی کوہِ سلیمان ہے اور یہ پشتو روایات کے مطابق حضرت سلیمانؑ سے منسوب ہے۔ ابنِ بطوطہ کے مطابق اس چوٹی پر پہنچنے والے سب سے پہلے شخص حضرت سلیمانؑ تھے اور یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت نوحؑ اور ان کی اولاد نے اس علاقے کے ارد گرد سکونت اختیار کی۔
7. چوکنڈی کا قبرستان
چوکنڈی کا قبرستان کراچی سے 29 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ جس میں ماضی کے بہت سے بادشاہ اور ملکہ مدفون ہیں۔ اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو یہاں پر موجود قبریں جلنے لگتی ہیں اور بہت گرم ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں چیخ و پکار کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔
Also see: Other Mysteries of the World دنیا کے عجوبے
0 Comments