پیارے دوستو! آج ہم آپ کو ایک ایسی روشنی سے متعارف کرانے جارہے ہیں جو خود اندھیروں کی باسی ہے اور صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود ان تاریکیوں کا سینہ نہیں چِیر سکی، جو اس کا مقدر ہیں۔ ہماری مُراد ہے دُنیا بھر میں تسلیم کیے جانے والا وہ معروف ترین کردار یعنی "الہٰ دین اور اُس کا جادوئی چراغ"۔
یہ علاقائی کہانی کہاں سے شروع ہوئی اور اس کا خالق کون ہے؟
شام سے تعلق رکھنے والے ایک کہانی نویس نے تقریباً 300 سال قبل اِس کہانی کی تخلیق کی۔ جس کے مطابق الہٰ دین چین کے ایک مسلمان اور غریب گھر کا فرد تھا، جس کا والد فوت ہو چکا تھا اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنا بچپن گزار رہا تھا۔
کہانی نویس کے مطابق ایک دفعہ الہٰ دین گلی کے بچوں کے ساتھ حسبِ دستور کھیل کُود میں مصروف تھا کہ اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے الہٰ دین کوبتایا کہ وہ اس کے مرحوم باپ کا بھائی ہے۔ الہٰ دین یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اسے اپنی والدہ کے پاس لے گیا۔ اُس کے نام نہاد چچا مصطفیٰ کی آمد الہٰ دین کی ماں کے لیے بھی ایک بڑی خوشخبری تھی۔ وہ تینوں ہنسی خوشی اکٹھے رہنے لگے اور مصطفیٰ جو کہ دراصل ایک خطرناک جادُوگر تھا، الہٰ دین کو مختلف تحفے تحائف دے کر اُس کا اور اس کی ماں کا دل جیتتا رہا۔
ایک دن مصطفیٰ الہٰ دین کو لے کر ایک قریبی بستی میں گیا جو کہ پہاڑوں میں واقع تھی اور الہٰ دین کو ایک جادُوئی انگوٹھی پہننے کے لیے دی، اور پھر ایک غار کے دہانے پر جا کر اسے کہا کہ بیٹا ! تم نیچے جاؤ اور اس غار سے ایک پُرانا چراغ اٹھا کر لے آؤ جو کہ ہمارے کام آ سکتا ہے۔ الہٰ دین جادُوگر کی ہدایت کے مطابق غار میں اتر گیا اور جب اس نے وہ مذکورہ چراغ اٹھایا تو دیوار کے ساتھ رگڑ جانے کی وجہ سے گِڑ گِڑاہٹ کی آواز پیداہوئی اور ساتھ ہی ایک خوفناک جِن سامنے آ گیا۔ الہٰ دین نے جب خوف سے اِدھر اُدھر ہاتھ مارے تو اس کے ہاتھوں میں موجود جادُوئی انگوٹھی ایک پتھر سے ٹکرائی اور دوسرے خوفناک جِن نے حاضر ہو کر کہا: کیا حکم ہے میرے آقا! انگوٹھی کے جِن کا حاضر ہونا تھا کہ چراغ والا جِن غائب ہو گیا اور الہٰ دین گھبراہٹ کے عالم میں چراغ کو اٹھا کر غار سے باہر نکل آیا۔ لیکن جب وہ باہر آیا تو غار کے دہانے پر جادُو گر موجود نہیں تھا۔
الہٰ دین چراغ لے کر والدہ کے پاس پہنچا۔ جب اُس کی والدہ اِس چراغ کو صاف کرنے کے لیے دھو رہی تھی تو رگڑ کی وجہ سے ایک دفعہ پھر چراغ کا جِن حاضر ہو گیا اور اس نے پوچھا: کیا حکم ہے میرے آقا! اس کی ماں ایک دفعہ تو خوفزدہ ہوئی لیکن فوراً ہی سنبھلتے ہوئے اسے ایک بڑی دولت لانے کا حکم دیا جو کہ اس نے فوراً ہی پورا کر دیا۔
چند ہی دنوں میں الہٰ دین اور اس کی والدہ کا شمار شہر کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا، جس کی بدولت الہٰ دین کی شادی بادشاہ کی بیٹی سے ہو گئی۔ چراغ والے جِن نے اُن کے لیے ایک شاندار محل بھی تعمیر کر دیا۔ جادُوگر نے اس دوران الہٰ دین اور اس کی والدہ سے چراغ حاصل کرنے کی بار ہا کوشش کی لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔
اب جادُو گر نے اس کے حصول کے لیے ایک نئی چال چلی۔ اس نے ایک بڑھیا کا رُوپ دھارتے ہوئے ایک نیا اور خوبصورت چراغ ہاتھوں میں لے کر محل کے سامنے یہ آواز لگائی کہ وہ پرانے چراغوں کے بدلے میں نئے چراغ دے رہا ہے۔ اِس موقع پر الہٰ دین کی سادہ لوح بیوی جو کہ جادوئی چراغ کی حقیقت سے واقف نہ تھی، اُس نے وہ پُرانا چراغ الہٰ دین کی غیر موجودگی میں اس بڑھیا یعنی جادُوگر کے حوالے کر کے نیا چراغ اُس سے لے لیا۔
الہٰ دین پر جب یہ حقیقت واضح ہوئی تو وہ بہت پچھتایا اور اب اس نے وہ جادوئی انگوٹھی جو کہ اب تک اس کی انگلی میں موجود تھی، کے غلام جِن سے مدد حاصل کرنے کی ٹھانی اور اسے دیوار کے ساتھ رگڑتے ہوئے جِن کو حاضر کر کے حکم دیا کہ وہ اسے جادُوگر سے وہ چراغ لا کر دے۔ لیکن اس جِن نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے آقا! وہ جادُوگر مجھ سے زیادہ طاقتور ہے اور میری اِتنی طاقت نہیں کہ میں اُس سے کوئی بھی چیز زبردستی لے سکوں۔البتہ میں آپ کی اتنی مدد کر سکتا ہوں کہ آپ کو اُس کے ٹھکانے تک پہنچاتے ہوئے اس جادُو گر کو کچھ دیر کے لئے جادُوئی نیند کے زیرِ اثر لا سکوں۔ لیکن میرے آقا! اس کے لیے میری ایک شرط ہے کہ آپ اس کے بدلے میں مجھے آزادی بخشیں گے جو کہ الہٰ دین نے فوراً قبول کر لی۔ اور پھر وہ انگوٹھی کے جن کی مدد سے اس مقام پر پہنچا جہاں اس کا نام نہاد چچا یعنی جادوگر ہر وقت چراغ کو اپنے سینے سے لپٹائے مقیم تھا۔ انگوٹھی کے جِن نے اپنی جادُوئی طاقت سے مصطفیٰ کو گہری نیند کا شکار کر دیا اور عین انہی لمحات میں الہٰ دین نے اپنا کھویا ہوا چراغ واپس لے کر اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے نہ صرف مصطفیٰ کو شکست دی بلکہ انگوٹھی کے جِن کو پروانہء آزادی بھی دے دیا۔
قارئینِ محترم ! ایک زمانے سے بڑوں اور بچوں میں مقبول اس کہانی کو اس کے رائیٹر کا شاہکار ہی تصور کیا جائے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہانی اچھی لگے تو Facebook اور Twitter پر اپنے دوستوں کو بھی ضرور شئیر کریں۔
You can read more interesting Funny Stories, Humorous Stories, Funny Short Stories, Interesting Stories in Urdu, Urdu Short Stories, Story in Urdu Funny, Urdu Stories for Kids, Funny Stories for Kids, and more interesting stories just right here: Funny Stories, Stories for Kids and Funny Posts.
0 Comments