دسمبر2019ء میں چائنہ کے شہر وُوہان (Wuhan) سے شروع ہونے والے خطرناک وائرس (COVID-19) نے اِس وقت ایک عالمی وباء کی شکل اختیار کر لی ہے اور دنیا کےتقریباً 212 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس وائرس نے 2 مئی 2020 تک تقریباً چونتیس لاکھ دو ہزار آٹھ سو چھیاسی (3,402,886) افراد کو شکار کیا ہے اورتقریباً دو لاکھ انتالیس ہزار چھ سو ترپن (239,653) افراد کی جان لی ہے اور یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
اس وباء سے پہلے بھی دنیا میں بہت سی وبائیں جنم لے چکی ہیں، جن کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔
اس وباء سے پہلے بھی دنیا میں بہت سی وبائیں جنم لے چکی ہیں، جن کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔
👈 1346ء سے لے کر 1353ء تک جاری رہنے والی Bubonic Plague نامی وباء نے یورپ، افریکہ اور ایشیاء کے کروڑوں افراد کی جان لے لی۔ یہ وباء بندرگاہوں پر لنگر اندازہونے والے جہازوں میں موجود چوہوں کی وجہ سے پھیلی۔
👈 1852ء سے شروع ہونے والے بخار نے 1860ء تک دنیا بھر کے تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) افراد کی جان لے لی۔
👈 1889ء میں "روسی بخار" کے نام سے ایک وباء پھیلی جس نے 1890ء تک تقریباً 10 لاکھ افراد کی جان لے لی۔
👈 1910ء میں انڈیا (بھارت) میں چیچک کی وباء پھیلی، جس نے 1911ء تک 8 لاکھ افراد کی جان لی۔ بعد میں یہ وباء مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریکہ، روس، مشرقی یورپ اور امریکہ تک پہنچی۔
👈 جنوری 1918ء میں Spanish Flu نامی ایک وباء پھیلی جس نے دسمبر 1920ء تک 50 کروڑ افراد کی جان لے لی۔ جن علاقوں میں یہ وباء پھیلی، وہاں کی مجموعی آبادی کے 10 سے 20 فیصد افراد کو قبر کی آغوش میں دھکیل دیا۔
👈 1956ء میں چین کے صوبہ Guizhou سے Asian Flu کے نام سے ایک وباء پھیلی، جس نے 1958ء تک 70 ہزار افراد کو نگل لیا۔ یہ وباء چین سے شروع ہو کر سنگا پور، ہانگ کانگ اور امریکہ تک پھیلی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وباء میں 20 لاکھ افراد لقمہ ءاجل بنے۔
👈 1968ء میں سنگا پور اور ویت نام سے شروع ہونے والی Influenza Flu نامی وباء نے 1969ء تک تقریباً 10 لاکھ افراد کی جان لے لی، جس میں 5 لاکھ صرف ہانگ کانگ کے باشندے تھے۔ یہ وباء صرف تین ماہ میں فلپائن، بھارت، آسٹریلیا اور یورپ تک پھیل گئی۔
👈 1976ء میں کانگوسے پھیلنے والی ایک بہت ہی خطرناک بیماری HIV/AIDS نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تقریباً 32 ملین (تین کروڑ بیس لاکھ) افراد لقمہ ء اجل بنے۔ اس میں 25.7 ملین افراد کا تعلق افریقہ سے تھا۔ یہ بیماری 2005ء سے 2012ء تک اپنے عروج پر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 2018ء میں اس بیماری سے تقریباً 7 لاکھ 70 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
👈 آج بنی نوع انسان کو ایک اور عالمی وباء کا سامنا ہے جسے COVID-19 کا نام دیا گیا ہے۔ اس وباء نے اب تک دنیا کے 212 ممالک میں پھیل کر تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار افراد کی جان لے لی ہے اور تقریباً 21 لاکھ افراد ابھی تک ہسپتالوں میں زیرِ علاج پڑے ہیں۔ اس وباء نے نہ صرف انسانوں کی جان لی ہے بلکہ پوری دنیا میں زندگی کا پہیہ بھی روک دیا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں کو پارٹیز میں جانے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور قریب بیٹھنے سے بھی محروم کر دیاہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ابھی تک اس وائرس کی کوئی ویکسین بھی دریافت نہیں ہوئی۔
آئیے ذیل کی تصاویر سے ہم اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وباء نے انسانی زندگی پر کیا کیا اثرات مرتب کیے؟
کرونا وائرس سے لڑنے والا سب سے پہلا طبقہ ڈاکٹرز حضرات تھے جنہیں بلاواسطہ کرونا وائرس کا سامنا تھا۔ اس جنگ میں کئی ڈاکٹرز اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھےہیں۔ پاکستان میں کئی ڈاکٹرز نے کام چھوڑ ہڑتال کر دی کیونکہ ان کے پاس کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حفاظتی کِٹس موجود نہیں تھیں۔ لہٰذا ڈاکٹرز حضرات کو بھی اپنی جان کے لالے پڑ گئےتھے۔ بہرحال اس طبقے نے کافی جان فشانی اور محنت سے کام کیا اور بہت سارے مریضوں کی جان بچائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ہمت و صبر سے کام کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ (آمین)
Lady Doctors also came to the fore to deal with this global epidemic. These lady doctors are working day and night alongside men in hospitals and quarantine centers and performing their sacred duty. |
اس عالمی وباء سے نمٹنے کے لیے لیڈی ڈاکٹرز بھی میدان میں آ گئیں۔ یہ لیڈی ڈاکٹرز دن رات مردوں کے شانہ بشانہ ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز میں کام کر رہی ہیں اور اپنا مقدس فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔
کرونا وائرس ایک ایسی وباء ہے جس کا ابھی تک علاج بھی دریافت نہیں ہوا۔ اس تناظر میں ڈاکٹرز حضرات نت نئے ٹوٹکے آزمانے میں لگے ہیں کہ شاید کرونا کے مریضوں کو کچھ سکون میسر آ سکے۔ اوپر کی تصویر میں آپ ڈاکٹرز کو مریضوں کا Immunity System (قوتِ مدافعت) بڑھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
The corona virus has spread to 212 countries around the world. The virus is now intensely searching for humans day and night and has gone after their lives. |
کرونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے 212 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ وائرس انتہائی شدت سے دن رات انسانوں کی تلاش میں لگا ہوا ہے اور اُن کی جان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔
خطرناک وباء کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے اور عوام کو اپنے گھروں تک محدود رہنے اور Self Quarantine کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اوپر تصویر میں ایک پاکستانی نے اپنے آپ کو گھر میں محدود اور قرنطین کیا ہوا ہے۔
Due to the lockdown in the country, people had stored their necessities in their homes. But within just two days of the lockdown, what was the condition of the house, see the picture above. |
ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام نے اشیائے ضروریات کو گھروں میں سٹور کر لیا تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن کے صرف دو ہی دن کے اندر گھر کی کیا صورتِ حال تھی، اوپر تصویر میں ملاحظہ فرمائیں۔
ڈیڑھ ماہ سے لگے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام بازار، دکانیں، شاپنگ ہالز، بیوٹی پارلرز اور حجام کی دکانیں بند ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کی حالت قابلِ رحم ہو گئی ہے، خصوصاً ان خواتین حضرات کی جو روزانہ میک اپ کے لیے بیوٹی پارلر کا دورہ کرتی تھیں۔
کرونا وائرس سے بچنے کے لیے سب سے پہلا حفاظتی اقدام سرجیکل ماسک تھا جو کہ دنیا سے ناپید ہو چکا ہے۔ اب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جان بچانے کے لئے نئے نئے ماسک ایجاد کر لیے ہیں، جو قابلِ ستائش ہیں۔
Necessity is the mother of invention. When a person needs something and that thing is not available anywhere in the world, what does it make a person do? As you can see from the picture above. |
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ جب انسان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ چیز پوری دنیا میں کہیں بھی دستیاب نہ ہو تو وہ انسان سے کیا کچھ کروا دیتی ہے۔ اوپر کی تصویر سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کرونا وائرس کے شدت سے پھیلاؤ کے پشِ نظر بچوں کو بھی اپنی جان کے لالے پڑ گئےہیں۔ اب بچے بھی ماسک کے بغیر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ جو کہ نہایت ہی اہم اقدام ہے۔ درج بالا تصویر میں ایک بچہ (درمیان والا) نے کھانے کے دوران بھی ماسک پہنا ہوا ہے۔ وہ چند لمحے کے لیے ماسک کو نیچے کرتا ہے، ہاتھ میں موجود چپس (لیز) کھاتا ہے اور فوراً ہی ماسک چڑھا لیتا ہے۔ احتیاط ضروری ہے۔
Due to the growing fear in humans, animals have also worn masks to avoid the coronavirus. Obviously life is dear to everyone and precaution is must for everyone, whether human or animal. |
انسانوں میں بڑھتے ہوئے خوف کے پیشِ نظر جانوروں نے بھی کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ماسک پہن لیے ہیں۔ ظاہر ہے زندگی سب کو عزیز ہے اور احتیاط سب کے لیے۔ چاہے انسان ہو یا جانور۔
Due to the rapid spread of the corona virus, masks have become a necessity for everyone. But due to the severe crisis of Surgical Masks around the world, various companies have submitted their proposals. These masks will be available in the market very soon. These masks of the future will be something like this, see above.
کرونا وائرس کے شدت سے پھیلاؤ کی وجہ سے ماسک اس وقت ہر انسان کی ضرورت بن چکا ہے۔ لیکن پوری دنیا میں سرجیکل ماسک کے شدید بحران کے باعث مختلف کمپنیوں نے اپنے اپنے پروپوزل دے دیئے ہیں۔ بہت جلد ہی یہ ماسک مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔ مستقبل کے یہ ماسک کچھ اس طرح کے ہوں گے، اوپر ملاحظہ فرمائیں۔
Policemen are also wearing Corona Helmets to protect against the Coronavirus. Now this helmet will not only protect them from the Corona virus but also prevent people from taking to the streets due to their scary appearance.
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پولیس نے بھی کرونا ہیلمٹ پہن لئے ہیں۔ اب یہ ہیلمٹ نہ صرف ان کو کرونا وائرس سے بچائے گا بلکہ اپنی ڈراؤنی شکل کے باعث عوام کو سڑکوں پر آنے سے بھی روکے گا۔
A policeman wearing a Corona helmet is blocking people from taking to the streets. I think if anyone saw this helmet up close, he would never hit the road.
ایک پولیس والا کرونا ہیلمٹ پہنے لاک ڈاؤن کے باعث لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روک رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے یہ ہیلمٹ قریب سے دیکھ لیا تو وہ کبھی بھی سڑک پر نہیں آئے گا۔
The government has opened some shopping halls and shops to cater to the needs of the people. But before entering these shops, people are sprayed to prevent the alleged spread of the virus.
لوگوں کی ضروریات کے پیشِ نظر اُن کو بھوک سے بچانے کے لیے حکومت نے کچھ شاپنگ ہالز اور دکانیں کھول دی ہیں۔ لیکن ان شاپس میں داخل ہونے سے پہلے لوگوں کو سپرے کیا جاتا ہے تاکہ وائرس کے مبینہ پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔
The use of masks has been made mandatory in shopping halls. But due to the severe mask crisis, people have made masks with their help. On the contrary, some people have completely wrapped themselves in polythene so that the virus does not attack from anywhere. |
شاپنگ ہالز میں ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ماسک کے شدید بحران کے باعث لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ماسک بنا لیے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگوں نے تو مکمل طور پر اپنے آپ کو پولی تھین میں لپیٹ لیا ہے تاکہ کہیں سے بھی وائرس کا حملہ نہ ہوسکے۔
One person entering the shop not only protected his body but also brought an oxygen cylinder to breathe. He thinks that the coronavirus patient may be inside the shop and the air may be infected. |
شاپ میں داخل ہونے والے ایک شخص نے نہ صرف اپنے جسم کو محفوظ کیا ہوا ہے بلکہ سانس لینے کے لئے آکسیجن سلنڈر بھی ساتھ لے آیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کرونا وائرس کا مریض شاپ کے اندر موجود ہو اور وہاں کی ہوا بھی وائرس آلود ہو۔ بہر حال احتیاط سب کے لئے ۔
Some shops have been opened while easing the lockdown. But due to the terrible epidemic, the barbers also got frightened and worried for their livelihood but precautions and social distance are very important for them. |
لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے کچھ شاپس کھول دی گئی ہیں۔ لیکن خوفناک وباء کی وجہ سے حجام حضرات کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ظاہر ہے روزی تو کرنی ہے، لیکن احتیاط اور Social Distance بہت ضروری ہیں۔
A beautiful style of a Barbar inside the shop while he is taking care and maintaining the social distance. All should do like this. |
ایک حجام کا شاپ کے اندر Social Distance کا خیال رکھتے ہوئے خوبصورت انداز۔
دوستو! زندگی بہت قیمتی ہے اور سب کو عزیز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ موت کا ذائقہ تو ہر ذی روح نے چکھنا ہے لیکن خود کشی کی موت بھی حرام ہے۔ لہٰذا کرونا وائرس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ ماسک کا استعمال ضرور کریں، چاہے سرجیکل ماسک ہو یا گھر میں بنایا ہوا کپڑے کا۔ لیکن ضرور پہنیں، اس میں آپ کا اور دوسروں کا فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس موذی وائرس سے سب کو بچائے۔ (آمین)
اگر پوسٹ اچھی لگی ہو یا اپنے قیمتی آراء اور خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو نیچے Comment سیکشن میں ضرور بتائیے گا۔ شکریہ
0 Comments